میں یہاں اسلام سے قبل کی تاریخی عمارتوں کی جانب اشارہ کروں گا، تخت جمشید اور دیگر آثار جو یہاں واقع ہیں انسان انہیں دو زاویوں سے دیکھتا اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جانا چاہئے۔ ایک زاویہ نگاہ یہ ہے کہ یہ تو وہ آثار قدیمہ ہیں جن کا تعلق تاریخ کے جابروں سے ہے جس عمارت کو بھی دیکھئے تاریخ کے کسی ظالم حاکم سے اس کا تعلق ہے۔ یہ ان عمارتوں کا منفی پہلو ہے۔ دیندار اور مذہبی افراد جو ظلم و ستم سے فطری طورپر بیزار ہیں جب اس زاوئے سے ان آثار قدیمہ کو دیکھتے ہیں تو ان میں ان کے لئے کوئي کشش نہیں ہوتی ہے تاہم ان آثار قدیمہ کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں ایرانی فنکاروں کے خون پسینے اور زحمتوں کا شاہکار اور اعلی ایرانی فکر و خیال کا نتیجہ ہیں۔ یہ ان عمارتوں کا مثبت پہلو ہے۔ یہاں، اصفہان میں اور اسی طرح دیگر مقامات پر جو تاریخی عمارتیں ہیں انہیں خصوصیات کی حامل ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہیں جابر حاکموں نے استعمال کیا ہے لیکن ان شاہکاروں کا خالق کون ہے؟ ظاہر ہے کہ ایرانی ذہن، ایرانی فنکار کی مشاق انگلیاں، ایرانی ذوق و نظر ان کی تخلیق ہوئی ہے۔ جب ہم اس زاوئے سے دیکھتے ہیں تو ان کا مثبت پہلو سامنے آتا ہے۔ خواہ وہ تخت جمشید ہو یا دیگر عمارتیں، ان کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
دنیا میں بہت سی ایسی چیزوں کو جن کا کوئي پر افتخار پہلو نہیں ہے کبھی کبھی تاریخی یادگار کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ جن کے پاس تاریخی یادگار نہیں ہیں وہ ان کی نقل اتارتے ہیں۔ ہمارے پاس تو کتنے گرانقدر آثار قدیمہ ہیں! یہ تاریخی چیزیں جوملت ایران کے لئے مایہ فخر اور اس کی خود اعتمادی میں اضافے کا موجب ہیں، ہم انہیں متعارف کیوں نہ کرائيں؟
ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ گئے تھے یونان، ان لوگوں کو مختلف سیاحتی مقامات پرلے جایا جاتا تھا اور یہ مقامات دکھائے جا رہے تھے۔ ایک ایسی جگہ بھی لے جایا گيا جس کے بارے میں یہ اطلاع دی گئي کہ یہاں ایرانی فوج آئي تھی اور اسے ہم نے شکست دی تھی۔ ایک لق و دق میدان میں لے جاکر بتایا جا رہا تھا کہ یہاں ایرانی فوج نے چڑھائي کی تھی اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کسی بھی قسم کی نشانی سے خالی ایک جگہ دکھا کر اسے کسی تاریخی چیز کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے۔ تو یہاں جو کازرون کے علاقے کے نزیک شہنشاہ روم والرین کا مجسمہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے جس نے بادشاہ ایران کےسامنے گھٹنے ٹیکے ہیں، اس کے پروپگنڈے کی ضرورت ہے یہ ہمارے ماضی کے اہم واقعات کی نشاندہی کرنے والی چیزیں ہیں۔
ویسے میں یہ ضرور کہوں گا اور اس پر میرا پورا یقین ہے اور میں اپنے مطالعے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام کی آمد کے بعد ایران نے جو کارنامے انجام دئے ہیں ان کے مقابلے میں اس سے قبل کی تاریخ میں جو کچھ بھی انجام پایا ہیچ ہے۔ اسلام کے زمانے میں، تیسری چوتھی اور پانچویں ہجری قمری میں ایران، دنیا میں علم و ادب اور اقتصادی و سیاسی میدان میں اوج پر تھا۔ مشرق سے لے کر مغرب تک، ایشیا سے لے کر یورپ تک دنیا کا کوئي بھی علاقہ اس حد تک پیش رفتہ نہیں تھا۔ یہ اسلام کی برکت تھی۔ اس سے قبل ایران کو کبھی یہ مقام حاصل نہیں ہوا۔ آل بویہ کے دور سے لے کر غزنویوں، سلجوقیوں اور صفوی دور تک ایران جس مقام پر رہا اس کا کسی اور زمانے سے مقابلہ نہیں کیا سکتا۔ البتہ تاریخ ایران کا وہ دوسرا حصہ بھی ہماری ہی تاریخ ہے۔ اب یہ ہے کہ اس دور میں کسی ظالم بادشاہ کے ہاتھ میں زمام اقتدار تھی اور اس نے غلط طور طریقے رائج کر رکھے تھے یہ اپنی جگہ لیکن ایرانی فن و ہنر تو بہرحال ہے۔ تو سیاحت کے مسئلے پر خصوصی توجہ ضروری ہے۔ زیارتگاہیں ہوں یا ادبی اور فنی میدان کے شاہکار آپ کے پاس ان کے بہترین نمونے (حافظ و سعدی) ہیں۔ چونکہ یہ علاقہ زراعتی شعبے کے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے مناسب ہوگا کہ خشکسالی سے مقابلے کے لئے طویل المیعاد تحقیقات انجام دی جائيں کہ جو کافی طویل اور وسیع عمل ہے اور اس کے متعدد پہلو ہیں اور ان تحقیقات کا مرکز اسی شہر میں قائم کیا جائے۔ یہاں مرکزی حیثیت کے حامل جس ادارے کا قیام عمل میں آ سکتا ہے، میری نظر میں یہی ادارہ ہے، انشاء اللہ اس سلسلے میں اس دورے سے متعلق موضوعات کی درجہ بندی کے وقت متعلقہ افراد اس موضوع کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے اور ضروری اقدامات کئے جائيں گے۔ جیسا کہ آپ حضرات نے بیان فرمایا کہ طبی شعبے میں آپ کی کچھ خاص خصوصیات ہیں، اس شعبے میں بھی آپ ایک بے مثال کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ البتہ دوسرے بہت سے اہم کام بھی اس صوبے میں انجام دئے جا سکتے ہیں۔ انشاء اللہ خداوند عالم حکام کی مدد فرمائے اور وہ ضروری اقدامات انجام دیں۔ انشاء اللہ آپ سبھی، اللہ تعالی کی عنایتوں کے زیر سایہ جہاں بھی ہیں اور جس عہدے پر بھی فائز ہیں اس پروگرام کو آگے بڑھانے میں تعاون کریں۔
عوامی خدمت کے اس موقع کی قدر کیجئے۔ عوام کے اس تعاون کی اہمیت کو درک کیجئے۔ عوام کے جوش و جذبے اور اس آمادگی کی قدر کیجئے اور اللہ تعالی سے مدد مانگئے۔ ہدایت و رہنمائي کی دعا کیجئے۔ انشاء اللہ خدا وند عالم آپ کی مدد فرمائے گا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دست دعا دراز کیجئے کہ آپ کے ذریعے اور ملک کے دیگر حکام کے ذریعے اس ملک کی روز افزوں ترقی کے اسباب فراہم کرے اور اس صوبے اور اس ملک کے مستقبل کو ماضی سے زیادہ بہتر اور تابناک بنائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
رہبر معظم کا صوبہ فارس کی انتظامیہ کے اعلی عہدہ دارو کے اجلاس سے خطاب
07-05-2008
خامنہ ای ڈاٹ آئی آر