مجھے فلموں اور ڈراموں کے بارے میں معلومات نہیں ہے لیکن جہاں تک شعر اور ناول کا سوال ہے تو میں اس سے بے بہرہ نہیں ہوں۔ جو تصنیفات موجود ہیں ان میں سے میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ اگر آپ سویت یونین کے دور کے ادب پر نظر ڈالیں تو آپ کو اچانک محسوس ہوگا کہ بیچ میں ایک پردہ ہے، ایک حصار موجود ہے اور اس حصار کے دونوں طرف بڑے عظیم شاہکار موجود ہیں جن کا تعلق دونوں اطراف سے ہے۔ لیکن جب آپ شولوخف یا الیکسی ٹولسٹائے کی تصنیفات کو دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کا مذاق کچھ اور ہے۔
الیکسی ٹولسٹائے بہت بڑے قلمکار ہیں جنہوں نے بڑے اچھے ناول تخلیق کئے ہیں۔ وہ سویت یونین کے انقلاب کے مصنفین میں سے ہیں اور ان کی تصنیفات میں نئے دور کی جھلکیاں آپ کو ملیں گی۔ جبکہ لیو ٹالسٹائے کی کتاب میں آپ کو روسی قوم پرستی نظر آئے گی تاہم گزشتہ ساٹھ سالہ دور کی چیزیں آپ کو کہیں نظر نہیں آئيں گی۔ وہ کوئی الگ ہی دور ہے اور بنیادی طور پر اس کا تعلق کسی اور جگہ سے ہے۔ روس کی موجودہ ماہیت کو جو چیز منعکس کر سکے وہ کیا ہے؟ شولوخف اور الیکسی ٹولسٹائے جیسے مصنفین کی تصنیفات ہی میں آپ یہ چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ بنابریں ہر دور کا فنکار وہی ہے جس کا تعلق اس دور سے ہو اور جو اسی دور میں پلا بڑھا ہوا، اسی دور کا نتیجہ و ثمرہ ہو۔ جو افراد قدیم اور گزشتہ ادوار کی یاد میں قلم فرسائی کرتے ہیں ظاہر ہے ان کا تعلق ان ادوار سے تو نہیں ہے۔
میں اس سلسلے میں ایک مکمل نمونہ پیش کرنے کے لئے بہتر ہوگا کہ کسی ایک ناول کا نام بھی لوں۔ میں نے "دل سگ" نام کا ایک ناول پڑھا جو روسی مصنف کی تخلیق تھی۔ یہ ناول ایک تخیلی اور سائنسی داستان پر مبنی ہے لیکن یہ عصر حاضر کا فن نہیں ہے۔ یہ گزشتہ دور کی نقل ہے۔ میں یہ مان سکتا ہوں کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس کے ناولوں کی کاپی نہیں ہے لیکن بہرحال اکتوبر کے انقلاب سے پہلے کے دور کی نقل ضرور ہے۔ یہ موجودہ دور کا فن نہیں ہے۔ یہ بڑا چھوٹا سا ناول ہے لیکن بہت ماہرانہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ ایران میں بھی اس کا ترجمہ ہوا اور اشاعت بھی ہو چکی ہے ۔ "دل سگ" ناول انقلاب مخالف ناول ہے جو انیس سو پچیس یا انیس سو چھبیس میں یعنی روس میں آنے والے انقلاب کے اوائل میں لکھا گيا اور ناول نگار نے انقلاب اور کچھ کاموں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا ہے۔ مثلا یہی کام جن کی مثالیں ہم نے یہاں بھی دیکھی تھیں۔ یہ ناول روسی ادب کا جز ہرگز نہیں ہے۔ یہ ناول عالمی سطح پر شہرت پا سکتا تھا، یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سخت پہرا تھا اور اسٹالن کا دور تھا، ایسا بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ عالمی سطح پر نہیں آ سکا۔ کیوں عالمی سطح پر ایک شاہکار کی حیثیت سے اس کی پہچان قائم نہیں ہو سکی۔ جبکہ (میخائل شولوخف کے ناول) "دن آرام" کو دنیا میں بہت نمایاں مقام حاصل ہوا۔ صرف روس کی بات نہیں ہے، اس کا ترجمہ دنیا کی اہم زبانوں میں کیا گيا ہے، یہ (روس کے) انقلاب سے متعلق ادبی شاہکار ہے۔
خامنہ ای ڈاٹ آئی آر