بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرض شناس فن کی ترکیب کے دونوں الفاظ میں باہم تضاد پایا جاتا ہے۔ فن یعنی وہ چیز جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ہو جبکہ فرض شناسی یعنی زنجیر۔ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے جمع ہو سکتی ہیں؟ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کے مسئلے کا تعلق فنکار سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس کے انسان ہونے سے ہے جو وہ فنکار بننے سے پہلے بھی تھا۔ کوئي بھی فنکار بہرحال ایک فنکار بننے سے قبل انسان ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان کی کوئي ذمہ داری سرے سے ہو ہی نہ۔ انسان کی سب سے پہلے دوسرے انسانوں کے تعلق سے کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جبکہ بعد کے مراحل میں زمین و آسمان اور قدرت کے سلسلے میں بھی اس کے فرائض ہوتے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری انسانوں کے تعلق سے ہوتی ہے۔
فن کے پیرائے اور قالب کے سلسلے میں بھی اور اس کے مضمون کے سلسلے میں بھی فنکار کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ہے اسے نچلی سطح پر کبھی بھی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ فرض شناسی کا تقاضا ہے۔ محنت سے بھاگنے والا سست فنکار وہ فنکار جو اپنے فن کے ارتقاء کے لئے اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے سعی و کوشش نہیں کرتا وہ در حقیقت اپنے فن کے قالب و پیرائے کے سلسلے میں اپنی فنکارانہ ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ فنکار کو ہمیشہ محنت کرنی چاہئے۔ البتہ ممکن ہے کہ انسان اس مقام پر پہنچ جائے کہ اب اور آگے جانے کی گنجائش ہی باقی نہ ہو، اگر ایسی صورت ہو تو پھر کوئی بات نہیں ہے لیکن جب تک اگے بڑھنا ممکن ہے اسے چاہئے کہ اپنے فن کے پیرائے کے ارتقاء کے لئے محنت کرے۔ فن کے پیرائے کے سلسلے میں یہ فرض شناسی جوش و جذبے اور احساس ذمہ داری کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ ویسے یہ جوش و جذبہ بھی ایک طرح کی ذمہ داری ہی ہے، یہ ایک قوی عامل ہے جو انسان کو محنت کے لئے آمادہ کرتا ہے، اس کے اندر سستی اور راحت طلبی پیدا نہیں ہونے دیتا۔
اگر انسان محترم اور معزز ہے تو اس کا دل و ذہن اور فکر و نظر بھی معزز اور محترم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مخاطب کے سامنے کوئی بھی چیز پیش کر دی جائے صرف اس وجہ سے کہ وہ شخص سامنے بیٹھا فن کار کی باتیں سن رہا ہے۔ اس بات پر توجہ ہونا ضروری ہے کہ فنکار اپنے مخاطب کو کیا دینے جا رہا ہے۔ بر محل کلام، اخلاق اور فضائل کا جز ہے۔ میں نے غالبا رومن رولینڈ (فرانسیسی مصنف 26 جنوری 1866- 30 دسمبر 1944) کا یہ جملہ پڑھا ہے کہ فنکارانہ تخلیق میں ایک فیصد فن اور ننانوے فیصد اخلاق ہوتا ہے یا احتیاط کے طور پر یہ کہنا چاہئے کہ اس میں دس فیصدی فن اور نوے فیصدی اخلاق ہوتا ہے۔ مجھے لگا کہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں یہی کہوں گا کہ سو فیصدی فن اور سو فیصدی اخلاق۔ ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ فنکارانہ شاہکار کو سو فیصدی فنکارانہ خلاقیت کے ذریعے انجام دینا چاہئے اور اسے سو فیصدی اعلی، با فضیلت اور مایہ پیشرفت مضمون سے پر کر دینا چاہئے۔ فن کے میدان میں ہمدرد انسانوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ فکر اور تشویش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ فنکار فن اور تخیل کی آزادی کے بہانے اخلاقیات کی حدود کو نظر انداز نہ کر دے۔ یہ بے حد اہم چیز ہے۔ بنابریں "فرض شناس فن" کی ترکیب بالکل درست اور صحیح ہے۔
فنکار کو چاہئے کہ خود کو ایک حقیقت کا پابند سمجھے۔ یہ بات کہ فنکار فکر و نظر کی کس سطح پر ہے اور وہ حقیقت کو کامل طور پر یا محدود سطح پر سمجھ سکتا ہے، ایک الگ بات ہے، البتہ ادراک اور فہم و فراست کی سطح جتنی اونچی ہوگی فنکار اپنے فنکارانہ ادراک کی ظرافت میں اتنی ہی کشش پیدا کر سکتا ہے۔ حافظ ( ساتویں صدی ہجری کے عدیم المثال ایرانی شاعر) صرف ایک فنکار نہیں تھے۔ ان کی باتوں میں بڑی اعلی تعلیمات اور معارف بھی موجود ہیں۔ یہی نہیں ان کے پاس ایک بڑا فلسفیانہ اور فکری ذخیرہ موجود ہے۔ فنکارانہ ادراک اور پھر اس کے انعکاس کے عمل کے پیچھے اعلی افکار کا سرچشمہ اور ذخیرہ ہونا چاہئے۔
البتہ سارے لوگ اس سلسلے میں ایک جیسے نہیں ہیں، اور اس کی توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ چیز فن کے تمام شعبوں پر صادق آتی ہے۔ آپ معماری سے لیکر مصوری، ڈیزائننگ، مجسمہ سازی، فلم، ڈرامے، شعر، موسیقی اور فن کے دیگر میدانوں تک دیکھئے یہی صورت حال ہر جگہ نظر آئے گی۔ آپ کو ایسا بھی معمار نظر آ جائے گا جس کے پاس اپنی ایک فکر ہے جبکہ ایسا معمار بھی ہو سکتا ہے جو فکر و نظر کے لحاظ سے ممکن ہے کہ خالی الذہن ہو اس کے پاس کوئی فکری سرمایہ نہ ہو۔ یہ دونوں اگر تعمیراتی کام کرنا چاہیں تو دو طرح کی ڈیزائنیں بنیں گی۔ اگر اس طرح کے دو لوگوں کو ایک شہر آباد کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جائے تو اس کا ایک نصف حصہ دوسرے نصف حصے سے مکمل طور پر الگ ہوگا۔
فرض شناس اور اصولوں کا پابند فن ایک حقیقت ہے جس کا اقرار کرنا چاہئے۔ تو ہر روز بدلنے والی ذہنیت، پست اور غلط سوچ کے ساتھ یا غفلت کے عالم میں فن کی جانب نہیں بڑھا جا سکتا اور اس میدان میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ جو مسرت و نشاط فن کار کے اندر ہونی چاہئے وہ اسی صورت میں حقیقی معنی میں پیدا ہوگی جب فنکار کو بخوبی علم و ادراک ہو جائے کہ وہ کس سمت میں بڑھ رہا ہے ، کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ہی اس میں اپنے فن کے تعلق سے خاص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے اور وہ فنکارانہ کام انجام دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فنکار کے اندر مخصوص مسرت و طمانیت پیدا ہوتی ہے جس کا عام خوشیوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اور یہ چیز غیر فنکار شخص میں ہرگز پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اخلاقیات، دینی معارف اور فضائل پر پوری توجہ دی جائے۔
خامنہ ای ڈاٹ آئی آر