دینی فن سے مراد وہ فن ہے جو دینی تعلیمات کو مجسم کر دے اور بلا شبہ ادیان الہی میں دین اسلام اعلی ترین تعلیمات اور معارف کا حامل دین ہے۔ یہ تعلیمات وہی چیزیں ہیں جو انسان کی سعادت و خوشبختی، انسان کے معنوی و روحانی حقوق، انسان کی سربلندی، بندے کے تقوا و پرہیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و مساوات کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ دینی فن کو رجعت پسندانہ فن نہیں سمجھنا چاہئے۔
دینی فن سے مراد، ریاکاری اور دکھاوا ہرگز نہیں ہے اور یہ فن ضروری نہیں ہے کہ دینی الفاظ پر ہی مبنی ہو۔ عین ممکن ہے کہ ایک فن سو فیصدی دینی فن ہو لیکن اس میں عرف عام میں رائج اور دینی الفاظ سے ہٹ کر کلمات کا استعمال کیا گيا ہو۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ دینی فن لازمی طور پر وہی ہے جس میں کوئی دینی داستان منعکس کی گئی ہو یا علماء اور دینی طلبا جیسے کسی دینی موضوع پر بات کی گئی ہو۔ دینی فن وہ ہے جو ان تعلیمات کی ترویج میں، جنہیں تمام ادیان بالخصوص دین اسلام نے انسانوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کی ہے اور جن کی ترویج کی راہ میں بڑی پاکیزہ جانیں قربان کی گئی ہیں، مددگار بنے، انہیں دوام بخشے اور لوگوں کے ذہنوں میں اتار دے۔ یہ تعلیمات اعلی دینی تعلیمات ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانی زندگی میں عام کرنے کے لئے اللہ تعالی کے پیغمبروں نے بڑی مشقتیں کی ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم یہاں بیٹھ کر دنیا کے منتخب انسانوں یعنی پیغمبروں اور مجاہدین راہ خدا کی مساعی اور جانفشانی پر سوالیہ نشان لگائیں اور ان کے سلسلے میں لا تعلق بن جائیں۔ دینی فن ان تعلیمات کو عام کرتا ہے، دینی فن عدل و انصاف کو معاشرے میں اقدار کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ خواہ آپ نے اپنے اس فن میں کہیں بھی دین کا نام بھی نہ لیا ہو اور عدل و انصاف کے سلسلے میں کوئی حدیث اور کوئی آیت نقل نہ کی ہو۔ ضروری نہیں ہے کہ فلم یا ڈرامے کے ڈائيلاگ میں دین یا دین کے مظہر کا درجہ رکھنے والی چیزوں کا نام لیا جائے تبھی اس میں دینی رنگ پیدا ہوگا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، آپ ممکن ہے کہ اداکاری کے ذریعے عدل و انصاف کی بات موثر ترین انداز میں پیش کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو در حقیقت دینی فن پر آپ نے توجہ دی ہے۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ فن سے مراد ہے بے دینی اور لاابالی پن، یہ غلط ہے۔ دینی فن میں جس چیز پر پوری گہرائی کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن شہوت پرستی، تشدد اور انسان اور معاشرے کے تشخص کی تباہی پر منتج نہ ہو۔ فن انسان کے اندر خالق یکتا کی صناعی کا ایک پر کشش جلوہ ہے۔ فن کے سلسلے میں قابل اعتراض بات جس پر ہمیشہ اہل بصیرت نے روک لگائی ہے، اس کا غلط سمت میں جانا ہے۔ فن کو اگر انسانوں کو بہکانے اور غیر اخلاقی حرکتوں میں مبتلا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو بری بات ہے۔ ورنہ اگر فن دینی جذبے کے ساتھ اور دینی سمت میں آگے بڑھے تو یہ وجود انسانی کی نمایاں ترین خوبیوں اور خصوصیتوں میں قرار پائے گاـ
پیغمبر اسلام نے اپنے پیغام کو پیش کرنے کے لئے تمام وسائل حتی فن کو استعمال کیا۔ وہ بھی اس کے بلند ترین اور افتخار آمیز پیرائے یعنی قرآن کی شکل میں۔ قرآن کی کامیابی کا ایک بڑا راز اس کا فنکارانہ انداز ہے۔ قرآن فن کی بلند ترین منزل پر فائز ہے، بالکل غیر معمولی درجے پر۔ واقعی قرآن میں بڑا عجیب فن موجود ہے جو انسان کے لئے قابل تصور نہیں ہے۔
اگر انسان قرآن کو شروع سے آخر تک اور اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کو بغور دیکھے تو محسوس کرے گا کہ اس میں شرک و بت و شیطان کی دشمنی اور وحدانیت موجزن ہے۔
اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھتے اور فن کی زبان استعمال نہ کرتے تو ممکن تھا کہ کچھ لوگ آپ کے گرویدہ بن جاتے لیکن وہ بجلی اور وہ طوفان ہرگز وجود میں نہ آ پاتا۔ یہ کام فن نے کیا۔ فنکارانہ تخلیقات ایسی ہوتی ہیں۔
خامنہ ای ڈاٹ آئی آر