معیار زندگی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو خود فنکاروں کی زندگی کوئی بہت اچھی نہیں ہے جبکہ بہت سے مواقع پر ان کی زندگی اطمینان بخش حالت میں بھی نہیں ہے۔ جو لوگ شعبہ فن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اگر وہ بعض چیزوں کے پابند ہوں تو مالی منفعت حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد کی مدد کرنا ضروری ہے۔ اگر ان کی مدد نہ کی گئي تو وہ ہر اس چیز کا رخ کریں گے جس سے کمائی کی جا سکتی ہو جو ان کے اخراجات پورے کرے۔ یہ چیز ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی۔ فلمی دنیا میں شہوت پرستی، جنسیات اور ان جیسی دیگر باتوں کے آ جانے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ فنکار کو نوجوانوں کے دلوں اور ذہنوں میں ایسی چیز نہیں اتارنی چاہئے جو اسے گناہ اور بد عنوانی کی سمت لے جائے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے کسی موضوع میں فکر و نظر کو انتخاب کے لئے آزاد چھوڑ دینا کہا جاتا ہے۔ جذباتی مسائل میں کسی کو انتخاب کا موقع کہاں ملتا ہے۔ ان میں تو انسان انتخاب کی طاقت ہاتھ سے دیکر کسی ایک سمت میں کھنچا چلا جاتا ہے۔ حالات ایسے ہونے چاہئے کہ فنکار بغیر کسی اجبار و اکراہ کے "خریدار" تلاش کرنے کی مجبوری کے بغیر اپنے فن کو پیش کرے تاکہ فن اپنی اصلی اور حقیقی شکل میں ابھر کر سامنے آئے۔
دنیا میں معنوی و روحانی دولت اور سرمائے کے سلسلے میں مادی سوچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روحانی و معنوی دولت کو اس معیار پر تولا جاتا ہے کہ اس سے کتنی رقم حاصل ہوگی۔ یہ فن اور یہ علم کس حد تک پیسے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسلام میں یہ معیار نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ علم و فن اور دیگر معنوی ثروتوں سے پیسہ کمانے میں کوئی مضائقہ ہو۔ نہیں، علم تو زندگی میں رفاہ لانے کا ذریعہ ہے، اس میں کوئي حرج نیں ہے لیکن اس سے قطع نظر خود یہ معنوی دولت بھی اسلام کے نقطہ نگا سے اپنے آپ میں بہت قیمتی شئے ہے۔ یعنی یہ فنکار خواہ اس کے فن کو کوئی نہ پہچانتا ہو اور اس کے فن سے کسی کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہے لیکن پھر بھی اس فن کا موجود ہونا ہی اپنے آپ میں اسلامی اور روحانی نقطہ نگاہ سے بہت با ارزش بات ہے۔ ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں وسائل کی کمی اور تجربے کے فقدان کی وجہ سے علم، تحقیق، فن یا اسی جیسے دیگر معنوی سرمائے کی مادی قیمت نہ دی جا سکے، خود ہمارے معاشرے میں یقینا یہ صورت حال ہے اور دنیا کے بہت سے علاقوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی ہے لیکن یہ اس بات کا باعث نہ بننے پائے کہ علم و فن کے ابلتے چشمے رک جائيں۔
خامنہ ای ڈاٹ آئی آر