در حال بارگذاری؛ صبور باشید
منبع :
جمعه

۱۰ تیر ۱۳۹۰

۱۹:۳۰:۰۰
50940

رہبر معظم کی اہل منبر کو نصیحتیں

دوسرا نکتہ اہل منبر کے ظریف اور پرکشش فن کے سلسلے میں عرض کرنا ہے۔ یہاں تشریف فرما حضرات میں اگر سب نہیں تو اکثریت اہل منبر حضرات کی ہے۔ میں نے ان گزشتہ برسوں کے دوران

دوسرا نکتہ اہل منبر کے ظریف اور پرکشش فن کے سلسلے میں عرض کرنا ہے۔ یہاں تشریف فرما حضرات میں اگر سب نہیں تو اکثریت اہل منبر حضرات کی ہے۔ میں نے ان گزشتہ برسوں کے دوران آج کی مناسبت سے منعقد ہونے والے جلسوں اور دیگر نشستوں میں اس نکتے کے بارے میں بہت گفتگو کی۔ تاہم اس پر مزید تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ جو اشعار آپ خوش الحانی کے ساتھ اور اپنی سماعت نواز آواز میں پڑھتے ہیں اس کی تاثیر بسا اوقات ایک مدلل منطقی و فلسفیانہ بیان سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جو کچھ پڑھا جا رہا ہے وہ صحیح طریقے سے منتخب کیا گيا ہو اور اس میں الفاظ اور معانی کی نزاکتوں کو مد نظر رکھا گيا ہو۔ شعر میں الفاظ کا انتخاب اس کی کشش کو بڑھاتا ہے۔ شعر کا انتخاب بہت توجہ سے کرنا چاہئے۔ شعر، فن کا ایک بڑا اہم مظہر ہے۔ ہر موزوں عبارت شعر نہیں ہوتی۔ شعر کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں۔ تو اچھے شعر کا انتخاب کرنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہمارے ہاں اچھے شعراء کی کمی نہیں ہے۔ ایسے شعرا جو اہل بیت علیہم السلام کی مدحت الگ الگ انداز لب و لہجے میں کرتے ہیں اور ان کا انداز بڑا پرکشش اور دلنشیں بھی ہے۔ اگر آپ کی جانب سے اس کی مانگ ہوگی تو مشق سخن بھی بڑھے گی۔ اچھا شعر، اچھی دھن اور اچھی آواز کی خاص اہمیت ہے۔ اچھی دھن کا مطلب یہ نہیں کہ راہ خدا سے گمراہ کر دینے والی موسیقی کی تقلید کی جائے۔ اس پر آپ ضرور توجہ دیں۔ بعض دھنیں بری ہیں، غلط ہیں، غناء کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسے منبر سے کی جانے والی مدح سرائی میں آپ نہ لائیں۔ تاہم اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ آپ نئی نئی دھنیں بنائيں اور نئے نئے انداز سے شعر پیش کریں لیکن اس تقلید اور مماثلت سے اجتناب کی کوشش کیجئے۔ میں گمراہ کن اور لہو و لعب کی مصداق دھنوں کے بارے میں یہ بات کہہ رہا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو کسی اور مفہوم کی پیشکش میں استعمال کی گئی ہے اس دھن کی بالکل تقلید نہ کی جائے۔ یہ ممانعت صرف لہو و لعب کے زمرے میں آنے والی دھنوں کے سلسلے میں ہے۔
اس کے علاوہ مضمون اور مفہوم کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ انسان منبر سے پیش کئے جانے والے اشعار کے بارے میں یہی فکر رکھتا ہے کہ اس میں سب سے پہلے تو اہل بیت علیہم السلام کی منقبت پیش کی جائے گی۔ ان کے مناقب کے ذکر سے قلوب کو جلا ملے گی، خوشی نصیب ہوگی، اشتیاق میں اضافہ ہوگا، انسان آبدیدہ ہو جائے گا۔ یہاں بھی مراد مستند مناقب سے ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ غیر معتبر باتیں بیان کی جائیں۔ معتبر کتابیں اہلبیت اطہار علیہم السلام کے فضائل و مناقب سے بھری پڑی ہیں۔ ان سے مدد لیناچاہئے۔ معتبر علمی شخصیات کے ذریعہ بیان کردہ باتوں کو اپنے اشعار میں جگہ دینا چاہئے۔ مثلا آج ایک صاحب نے شیخ محمد حسین اصفہانی کے اشعار پڑھے۔ ان کا شمار بزرگ علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ متعدد جلیل القدرعلماء اور فقہ و اصول و منطق و فلسفہ پر عبور رکھنے والی متعدد علمی ہستیاں اس بزرگ عالم دین کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ آپ طبع آزمائی بھی کرتے تھے۔ ظاہر ہے یہ اشعار خود سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان روایات کو بیان کیا جا سکتا ہے جو ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے متعلق ہیں اور معتبر کتب میں نقل کی گئی ہیں۔ تو ایک حصہ ہے مناقب اہل بیت علیہم السلام کا۔
اس کے بعد مرحلہ ہے وعظ و نصیحت کا۔ وعظ و نصیحت کا انتخاب ان عظیم ہستیوں کی زندگی کے واقعات سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہمیں نصیحتوں کی شدید ضرورت ہے۔ معاشرے میں اخلاقیات کی ترویج کے لئے، اچھے عادات و اطوار کے تعارف کے لئے، دینی معاشرے میں مطلوب اخوت و برادری، صفا و پاکیزگی اور ہم فکری و ہم خیالی کے جذبے کی تقویت کے لئے ہمیں نصیحتوں کی ضرورت ہے۔ یہ نصیحتیں ہم کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟ اخلاقیات کے ستون آپ کو ائمہ علیہم السلام کے کلام میں نظر آئيں گے، ان کی سیرت میں ملیں گے۔ ہمیں معاشرے میں اخلاقیات کو پروان چڑھانا چاہئے، لوگوں کو نیکی و بہی خواہی کی دعوت دینا چاہئے، امید، تعاون، بھائی چارے، صبر، بردباری، شکر، احسان، ایثار اور در گزر کرنے کی دعوت دینی چاہئے۔ برے اخلاق، تنگ نظری، ناامیدی، بد گمانی، دوسروں کے لئے منفی سوچ، حسد، بخل اور دیگر اخلاقی برائیوں سے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ نثر کی نسبت اشعار کی مدد سے یہ مرحلہ زیادہ بہتر طور پر انجام دیا سکتا ہے۔
ہمارے جیسا کوئی انسان بیٹھے اور لوگوں کو نصیحت کرے تو معلوم نہیں کہ اس کا گہرا اثر ہوگا یا نہیں لیکن جب کوئی شخص اچھی آواز میں پرکشش اور با معنی اشعار پیش کرتا ہے تو سامع کو محسوس ہوتا ہے کہ گویا کانوں میں کوئی شہد گھول رہا ہے۔ وہ انسان کے پورے وجود میں مٹھاس گھول دیتا ہے اور اس کا وجود گہرائیوں تک سیراب ہو جاتا ہے۔ اخلاقیات کو بار بار بیان کیا جانا چاہئے۔ کہنے اور سننے کا اثر ہوتا ہے لیکن یہ اثر دائمی اور ابدی نہیں ہوتا۔ معاشرے میں کچھ دیگر موثر عناصر بھی ہوتے ہیں جو اس کے بر عکس عمل کرتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اخلاقی باتوں کو بار بار دوہرایا جائے، بار بار بیان کیا جائے۔
ایک اور اہم حصہ زندگی کے مسائل کے تعلق سے لوگوں میں بصیرت و آگاہی پیدا کرنے کا ہے۔ میں اس سے قطعی متفق نہیں ہوں کہ منبر پر کچھ لوگوں کی برائی کی جائے۔ میں اسے پسند نہیں کرتا۔ تاہم بصیرت پیدا کرنا اور آگاہ کرنا ٹھیک ہے۔ آج ہماری قوم کی جو استقامت و پائيداری ہے وہ بصیرت کا ہی نتیجہ ہے۔ ہماری قوم کوعلم ہے کہ اس کے خلاف کیا کیا سازشیں رچی جا رہی ہیں، کون سے لوگ ہیں جو یہ سازشیں کر رہے ہیں۔ اسے علم ہے کہ ان سازشوں کا مقصد کیا ہے، ان (دشمنوں) کو ایرانی عوام کی کون سی بات ناپسند ہے۔ عوام ان چیزوں کو جانتے ہیں۔ ایرانی عوام کو معلوم ہے کہ جذبہ ایمانی، اسلام، حریت پسندی، خود مختاری، صحیح راستے پر پائیداری سے دشمن چراغ پا ہے۔ ہمارے عوام دشمن کو بھی پہچانتے ہیں، اس کے طریق کار سے بھی ہم سب رفتہ رفتہ واقف ہو چکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ دشمن کے حربے کیا ہیں۔ یہ بصیرت و آگاہی بہت اہم چیز ہے۔ اگر یہ بصیرت نہ ہوتی تو ہماری قوم میں یہ استقامت پیدا نہ ہو پاتی۔ دشمنوں کی جانب سے جو زہر افشانی ہو رہی ہے، وہ خود جو پروپیگنڈا کر رہے ہیں یا کچھ بکے ہوئے چینلوں کے ذریعے جو تشہیراتی مہم چلا رہے ہیں، سب کا ہدف بس یہی ہے کہ عوام کی اس بصیرت کو ختم کر دیں، ان کے اذہان میں حقائق کو مشکوک بنا دیں، انہیں ان کے ایمان سے، اسلام سے، استقامت سے، صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے، زندگی کے واقعات و تغیرات کی نسبت ان کے اندر موجود صحیح شعور اور قوت ادراک سے محروم کر دیں۔ ان حالات میں منبر سے بیان ہونے والی چیزوں میں ان امور کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس مناسبت سے شعر کا انتخاب کیا جانا چاہئے اور جملوں کا تعین کرنا چاہئے۔ سازگار فضا میں کبھی کبھی ایک جملہ دل پر ایسا اثر کرتا ہے جو پوری ایک کتاب کے اثر سے زیادہ ہوتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان دنوں معاشرے میں شعراء و خطباء واقعی اس رخ پر بڑا کام کر رہے ہیں۔ یہاں اس مقام پر منعقد ہونے والے پروگراموں میں بھی جن میں مجھے بھی شرکت کی توفیق حاصل ہوتی ہے اور اسی طرح ٹیلی ویزن سے نشر ہونے والے پروگراموں میں بھی۔
آخری نکتہ یہ کہ جس شخص نے اہل بیت کی منقبت خوانی کو اپنا پیشہ بنایا ہے اور اس راہ میں خدمت کر رہا ہے، اگر وہ اپنے اندر یہ تمام خصوصیات پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے تو مطالعہ پر خاص توجہ دینا چاہئے، اس سلسلے میں محنت کرنا چاہئے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ مداح زبانی پڑھا کرتے تھے، کاغذ یا کتاب سے دیکھ کر پڑھنے کو برا سمجھتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب ضروری نہیں ہے کہ آپ گھنٹوں بیٹھ کر اشعار اور قصیدے یاد کریں۔ آپ دیکھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ خطبائے کرام کا بھی یہی عالم ہے۔ ہم نے اپنی نوجوانی کے ایام میں کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی مقرر اپنی جیب سے کاغذ نکالے اور اس پر لکھی ہوئی حدیث پڑھے۔ اسے برا سمجھا جاتا تھا۔ جناب فلسفی مرحوم رضوان اللہ علیہ نے اس غلط رواج کو ختم کیا۔ وہ اپنی جیب سے کاغذ نکالتے تھے اور اسی سے روایت پڑھتے تھے۔ وہ ملک کے صف اول کے مقرر تھے۔ ان سے دوسرے مقررین کو بھی حوصلہ ملا۔ وہ حدیث کو صحیح طریقے سے پڑھنے کے لئے، مناسب موقعے پر پڑھنے کے لئے، بر محل بیان کرنے کے لئے جیب سے کاغذ نکالتے ہیں اور اس پر لکھی ہوئي چیزیں پڑھتے ہیں، اشعار پڑھتے ہیں۔ اس سے بڑی آسانی ہو جاتی ہے۔ مداح بھی یہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ مطالعہ کرنا، اہم نکات نوٹ کر لینا، پرچہ اپنے پاس رکھنا، مطالعے کے ساتھ اور نپی تلی باتیں بیان کرنا پہلی شرط ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ آپ اپنے مطالعے میں قرآن اور احادیث سے بھرپور آشنائی کی کوشش کریں۔ قرآن سے انس پیدا کرنا سب کے لئے ضروری ہے، ہم اس کی سفارش سب سے کرتے ہیں، ملک کے تمام نوجوانوں کو ہم اس کی سفارش کرتے ہیں۔ اس وقت خوش قسمتی سے یہی ماحول دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انسان دینی طلبہ کے درمیان، یونیورسٹی طلبہ کے درمیان، دیگر نوجوانوں کے درمیان ایسے افراد کو دیکھتا ہے جو قرآن سے خاص انسیت رکھتے ہیں، بعض نے قرآن حفظ بھی کر لیا ہے، بعض ایسے ہیں جو حافظ قرآن تو نہیں لیکن قرآن سے انہیں بھرپور واقفیت ہے، یعنی ممکن ہے کہ تمام تفصیلات ان کے ذہن میں نہ ہوں لیکن مجموعی طور پر قرآن کے مضمون کو وہ سمجھ لیتے ہیں۔ اتنا بھی بہت اہم ہے۔
موجودہ دور کا اگر بیس سال قبل اور پچیس سال قبل کے زمانے سے مقابلہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بہت فرق آ چکا ہے۔ بہت سے لوگ اس فرق کو محسوس نہیں کر پاتے لیکن میں چونکہ اس موضوع پر خاص توجہ رکھتا ہوں لہذا مجھے معلوم ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ قرآن سے آشنائی اور انسیت کے سلسلے میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پہلے ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہمارا قاری قرآن کی تلاوت کر رہا ہے لیکن اسے آیات کے معانی کا علم نہیں ہے۔ جہاں توقف کرنا چاہئے وہاں ملاکر پڑھ رہا ہے اور جہاں ملا کر پڑھنا چاہئے تھا وہاں توقف کر رہا ہے! آج کل آپ دیکھئے تو ایسا نہیں ہوتا۔ سب ترجمے سے واقف ہوتے ہیں۔ تو ہم قرآن اور احادیث سے آشنائی حاصل کرنے کی سفارش سب سے کرتے ہیں تاہم مبلغین، خطباء و مقررین سے اس سلسلے میں خاص تاکید کرنا ہے کہ قرآن سے زیادہ سے زیادہ آشنائی اور انسیت پیدا کریں۔ قرآن کی ضرور تلاوت کیجئے! ترجمہ پڑھئے اور ترجمے کو ذہن نشین کیجئے! جن آیتوں میں کوئی نصحیت ہے، کوئی اہم سبق ہے، انہیں ایک جگہ لکھ لیجئے اور موقعے پر ان سے استفادہ کیجئے! بیان بھی کیجئے اور خود بھی عمل کیجئے! احادیث کے سلسلے میں بھی اسی طرح۔
الحمد للہ اس وقت احادیث کی ہماری معتبر کتب کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ "اصول کافی" کا ترجمہ ہو چکا ہے، "من لا یحضرہ الفقیہ" کا ترجمہ ہو چکا ہے، "نہج البلاغہ" کا ترجمہ ہو چکا ہے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اقوال و فرامین کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ یعنی اب ایسا نہیں ہے کہ یہ چیزیں صرف عربی داں افراد سے مختص ہوں۔ عربی جاننے والے اور عربی نہ جاننے والے سب ان اقوال زریں سے بھرپور بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑا اچھا موقعہ ہے۔ جس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ بنابریں ہماری سفارش یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کیجئے، قرآن سے انسیت پیدا کیجئے، احادیث سے انسیت پیدا کیجئے، احادیث کے ذریعے اہل بیت اطہار کی تعلیمات سے واقفیت حاصل کیجئے، سب سے بڑھ کر اللہ تعالی کی جانب توجہ کیجئے، باری حق تعالی سے اپنے قلبی رشتے کو مضبوط کیجئے، دعا کے ذریعے، توسل کے ذریعے، ذکر کے ذریعے، خضوع و خشوع کے ذریعے، مستحبی نمازوں کے ذریعے۔
اگر یہ رشتہ مضبوطی کے ساتھ قائم رہے اور مستحکم سے مستحکم تر ہوتا جائے تو تمام دشوار کام رفتہ رفتہ پورے ہوتے جائيں گے۔ یہ سب سے اہم شئے ہے۔ اللہ تعالی سے خضوع و خشوع اور توسل کا یہ رشتہ بھی اہل بیت علیہم السلام کی ذوات مقدسہ سے جڑا ہوا ہے، انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ " من اراد اللہ بدء بکم" (یعنی اے اہل بیت پیغمبر جس نے اللہ کو پانا چاہا اس نےشروعات آپ کے وسیلے سے کی) صحیفہ سجادیہ کی دعائیں، "مناجات خمس عشر" دیگر مناجاتیں اور دعائیں جو منقول ہیں دلوں کو جلا بخشتی ہیں اور ذہنوں کو منور کرتی ہیں۔ انسان بہت سی معرفتیں انہی دعاؤں کے ذریعے بھی حاصل کر سکتا ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں توفیقات سے نوازے۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے۔ آج آپ حضرات کی زیارت کرکے اور آپ کی گفتگو سن کر بہت خوشی ہوئی۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں اہل بیت علیہم السلام کے سچے پیروکاروں میں قرار دے۔ پروردگارا! ہمیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا حقیقی شیعہ بننے کی توفیق دے۔ پالنے والے! ملت ایران کو تمام میدانوں میں کامیاب و کامران فرما۔ پروردگارا! مسلمانوں کے لئے، بحرین کے شیعوں کے لئے، تمام مستضعفین عالم کے لئے حالات کو آسان کر دے۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما اور حضرت کی دعائیں ہمارے شامل حال فرما۔

 

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ


شعراء و خطباء کے اجتماع سے قائد انقلاب اسلامی کا خطاب 24-05-2011

خامنہ ای ڈاٹ آئی آر

 

تماس با هنر اسلامی

نشانی

نشانی دفتر مرکزی
ایران ؛ قم؛ بلوار جمهوری اسلامی، نبش کوچه ۶ ، مجمع جهانی اهل بیت علیهم السلام، طبقه دوم، خبرگزاری ابنا
تلفن دفتر مرکزی : +98 25 32131323
فاکس دفتر مرکزی : +98 25 32131258

شبکه‌های اجتماعی

تماس

تمامی حقوق متعلق به موسسه فرهنگی ابنا الرسول (ص) تهران می‌باشد